احترام محبت قسط نمبر 41

60 2 8
                                    

احترام محبت قسط نمبر:41

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کے اس شہر اسلام آباد میں زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی۔ ویسے ہی روز مرہ کے کام ہو رہے تھے۔سورج ویسے ہی طلوع و غروب ہو رہا تھا۔ چاند و ستارے ویسے ہی آسمان کی رونق بڑھانے ہر شب طلوعِ فلک ہورہے تھے۔ اور وہ تینوں خاندان بھی ویسے ہی ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔نکاح کو ہوئے دو ہفتے گزر چکے تھے۔  ان دو ہفتوں میں وہ سب کافی حد تک ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل چکے تھے۔عالیان لوگوں کی یونی ورسٹی بھی اوپن ہو چکی تھی۔کیونکہ کچھ ہی چھٹیاں تھیں جو نکاح کے لیے انھوں نے لی تھیں۔
ان کا آخری سیمسٹر شروع ہو چکا تھا۔ سب اداس بھی تھے کہ کچھ وقت کے بعد انھیں جدا ہونا تھا۔مگر ابھی کچھ مہینے باقی تھے
جسے سب بھرپور طریقے سے انجوائے کرنا چاہتے تھے

"کتنے پوائنٹس ہو چکے ہیں عمر؟" عالی نے شیٹل کاک کا نشانہ باندھتے ہوئے اپنے ساتھی سے پوچھا۔

"باس دس دس سے برابر ہیں دونوں" عمر چوکنا سا ہوتے ہوئے بولا کیونکہ اسی دوران عالی شیٹل کاک ان کی طرف پھینک چکا تھا۔

"چلو پھر گیارہ ,دس کر کے گیم اپنے نام کرتے ہیں۔"

علی کی طرف سے آتی شیٹل کاک کو زور سے شارٹ لگاتے ہوئے وہ جوش سے بولا کچھ دیر کھیل جاری رہا اور پھر اپنی بات کے پکے عالیان نے شٹل کاک کو اتنی زور سے شاٹ لگائی کہ وہ نیٹ کو پار کر گئی اور علی کی ٹیم یہ میچ ہار گئی۔

"کوئی بات نہیں بڈی اگلی دفع بازی ہم ہی جیتیں گے ان شاءاللہ "

ریکٹس اور شٹل کاک کو ان کے مخصوص بیگ میں ڈالتے وہ اس سے معنی خیزی سے مخاطب ہوا

"دیکھیں گے" عالی نے اسے جواب دیا پھر نظر پھولوں کی اوٹ سے نظر آتی حور پر پڑی جس کے ساتھ مہرو بھی تھی۔ دونوں باتوں میں مصروف یونی ورسٹی کی پکی روش سے چلتی آ رہیں تھی۔
عالی کا دل کیا اسے تنگ کرنے کا ،چہرہ تو اسے دیکھ کر ہی کھل اٹھا تھا۔
وہ بھی آگے بڑھا اور بظاہر وہ ایسے چلنے لگا جیسے اسے نہیں معلوم کہ اگلی طرف سے کوئی آ رہا ہے۔ ایک کتاب اس نے بینچ سے اٹھا لی تھی بغیر دیکھے کہ وہ کس کورس کی کتاب ہے۔
وہ اس سمت چل رہا تھا جدھر حور تھی۔ جب وہ لوگ قریب پہنچے تو وہ دونوں یک دم رک گئیں۔

"سوری وہ ہمیں معلوم نہیں تھا آگے آپ ہیں" اس نے عالیان کو دیکھتے ہوئے معزرت کی اور دوسری سائیڈ ہوئی اور عالی بھی فوراً اسی طرف  ہو گیا۔

پھر اس نے سوری کہا اور کچھ دیر یہی سلسلہ چلتا رہا۔مہرو کو سمجھ آ گئی تھی کہ عالیان جان کر ایسے کر رہا ہے۔وہ ان دونوں کو کچھ وقت اکیلے دینے کا سوچ کر آگے بڑھ گئی ۔جس پر حور نے دل ہی دل میں  اسے بہت کچھ سنایا تھا۔
حور کو ایسے جانا بھی صحیح نہیں لگ رہا تھا۔ کیونکہ وہ اب اس کے سامنے ہی کھڑا ہو چکا تھا۔دونوں ہاتھ پینٹ کی جیب میں اڑسے مسکراتے ہوئے وہ اسے دیکھ رہا تھا۔
"آپ کو کوئی بات کرنی ہے؟" دو بھوری آنکھیں اس سے پوچھ رہیں تھیں۔ "ہاں اور سوری آپ کو تنگ کرنے کے لیے" معصومیت چہرے پر سجائے اس نے اعتراف جرم کیا تھا جس پر وہ پوری آنکھیں کھولے اسے دیکھتی رہ گئی

 Ahtraam Muhabat By Mehar ChaudhryWhere stories live. Discover now