احترام محبت قسط نمبر:39

50 2 17
                                    

شام کا وقت ہو رہا تھا۔ ٹھنڈ بھی بڑھ رہی تھی۔ تیز ہوائیں بہت لطف اندوز تھیں۔

گاڑی سڑک پر رواں دواں تھی۔ اس میں موجود تینوں نفوس بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ ہوتے بھی کیوں ناں مسز حسن اپنے بیٹے کا رشتہ طے کر کے آ رہیں تھیں۔ اپنے بیٹے کے چہرے پر وہ خوشی دیکھتے کے لیے وہ بے تاب تھیں۔ رستے سے انھوں نے کچھ مٹھائی کے ٹوکرے بھی لے لیے تھے۔

وہ لوگ کچھ ہی دیر میں ابراہیم مینشن پہنچنے والے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی ابراہیم مینشن کے گیراج میں آ کر رکی، اوپر کھڑکی سے کوئی سر نیچے کو جھکائے دیکھ رہا تھا ۔اس کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کیسا محسوس کر رہا ہے۔کیونکہ دانیال نے اسے حور کی رضامندی کے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا ۔اور خود پوچھنا اسے مناسب نہیں لگا ،مگر ایک بات وہ طے کر چکا تھا کہ اگر ایک مرتبہ پھر اس رشتے کا جواب انکار کی صورت ہوا تو پھر چاہے کچھ بھی ہو جائے ،چاہے حور خود ہی آ کر رشتے کے لیے ہاں کرے وہ دوبارہ اپنے ماں باپ کو وہاں نہیں جانے دے گا کیونکہ پیار اپنی جگہ اور ماں باپ کی عزت اپنی جگہ

مٹھائی کے ٹوکرے انھوں نے خاور (ہیلپر )کے زریعے پچھلے دروازے سے اندر رکھوا دیے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اندر لاونج میں سب ناک ، آنکھیں ،کان وغیرہ حاضر کیے بیٹھے تھے اور ان کے بولنے کے منتظر تھے۔ کیونکہ اس بار تو سب ہی اس امید میں تھے کہ جواب ہاں میں ہی آئے گا
جبکہ حسن صاحب  کے چہرے سے ایسا کچھ نہیں لگ رہا تھا۔

ابراہیم صاحب جو کب سے عینک کے پیچھے سے ان کو دیکھ (گھور)رہے تھے انھوں نے اپنے بیٹے کو مخاطب کیا
"جی بابا جان ؟"

وہ کچھ افسردگی سے بولے
ان کا بیزار سا رویہ دیکھ کر سب کے چہرے  اداس ہو چکے  تھے۔کیونکہ انھوں نے  پوری امید لگا لی  تھی کہ اس دفعہ تو انکار نہیں ہوگا

"بیٹا یوں خاموشی کا لبادہ اوڑھے رکھنے سے سچائی زیادہ دیر چھیی تو نہیں رہ سکتی جو بھی بات ہوئی ہے تم بتاؤ سب کو "

ابراہیم صاحب اس پلان کا حصہ نہیں تھے اس لیے وہ چاہتے تھے کہ یہ ناٹک اب ختم ہو

"کوئی بات نہیں یار عالی تجھے لڑکیوں کی کمی تھوڑی ہےبرو "

ایان نے ماحول کو ٹھیک کرنے کی اپنی سی کوشش کی کیونکہ اتنا تو سب کو اندازہ ہو ہی گیا تھا کہ شاید حیات ولا سے جواب ایک مرتبہ پھر انکار کی صورت ملا ہے۔

علشبہ، جبرائیل، روحیل، ریحان سب ہی سمجھنے سے قاصر تھے کہ آخر حسن صاحب کچھ بول کیوں نہیں رہے۔
ابراہیم صاحب نے اب کے انھیں صحیح آنکھیں دکھائیں (خبردار جو مزید میرے پوتے کو تنگ کیا تو اس عمر کا بھی لحاظ نہیں کروں گا )

ان کی آنکھیں دیکھانے پر حسن صاحب کے تاثرات کچھ ڈھیلے پڑے انداز بتا رہا تھا کہ اپنے باپ کا پیغام انھیں بزریعہ گھوری کے مل چکا تھا ۔

 Ahtraam Muhabat By Mehar ChaudhryWhere stories live. Discover now