احترام محبت قسط نمبر:23

34 2 19
                                    

احترام محبت قسط نمبر:23
امان ہوٹل واپس آیا اور بغیر آگے پیچھے دیکھے اپنے کمرے کی طرف تیزی سے چلا گیا۔وہ جیسے گیا تھا واپسی پر اس سے برعکس تھا۔ اپنے کمرے کا دروازہ بند کرکے اس نے ہاتھ میں پہنی گھڑی اتاری (مال میں ہی وہ اپنا حلیہ بدل چکا تھا ) اور اسے بیڈ پر پھینکا فون اور والٹ بھی بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھے اور خود وہ کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا۔
یہ چہرہ جو آج وہ دیکھ کر آیا تھا اس چہرے نے امان کو کافی مضطرب کر دیا تھا ماتھے پر لکیریں صاف نمودار ہو رہیں تھیں ۔ نظریں باہر تاروں سے سجے آسمان پر تھیں جبکہ دماغ مال میں اچانک ٹھکرانے والی اس لڑکی کی طرف تھا جو اجنبی ہو کر بھی اجنبی نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے گھر آئے ایک گھنٹہ ہو چکا تھا۔کھانا بھی اسنے برائے نام ہی کھایا تھا اور کھانے کے فوراً بعد اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔ کھڑکیوں کے پردے برابر کر کے وہ سونے کی غرض سے اپنی بیڈ پر آ گئی
مگر آج نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔
آج زندگی میں پہلی بار اسکا چہرہ کسی نا مہرم مرد نے دیکھا تھا۔اور یہ بات اسے بہت بے چین کر رہی تھی۔ حالانکہ اسکی غلطی بھی نہیں تھی مگر وہ خود کو مجرم سمجھ رہی تھی ۔ باہر ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی جس سے کھڑکیوں پر موجود پردے پھڑپھڑا رہے تھے۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور کھڑکی کے پردے پیچھے کیے باہر اب بارش شروع ہو چکی تھی, آسمان پر اب کہیں کوئی تارہ ہی نظر آ رہا تھا باقی سب ستارے بادلوں کے درمیان چھپ گئے تھے۔

نور نے کھڑکی بھی کھول دی اور ایک ہاتھ باہر نکال کر بارش کے قطرے اپنے ہاتھ میں جذب کرنے لگی۔کیونکہ اسے بارش بہت پسند تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھڑکی بند کر کے وہ بیڈ پر آ کر لیٹ گیا چہرے پر تھکن کے اثرات تھے۔ اسے اس مشن کی اگلی رپورٹ بھی کل دینی تھی۔ جس کے لیے وہ آج صبح سے نکلا ہوا تھا۔مگر مال والے واقعے کی وجہ سے اسکا دھیان اب دو چیزوں میں بٹ چکا تھا۔
بجلی کی گرجنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ مگر وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھا۔
ہاتھ سے اپنے ماتھے کو مسلتے ہوئے اسنے فون اٹھایا
اس وقت رات کے نو بجے کا وقت تھا اور وہ جانتا تھا کہ ثناء اس وقت پڑھائی کر رہی ہوتی ہے ۔
امان نے اسے کال ملائی اور اسکے کال پک کرنے کا انتظار کرنے لگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"نور ؟
ابھی تک سوئی نہیں تم ؟"
وہ بارش دیکھنے میں اتنی مگن تھی کہ دروازے کی آہٹ تک اسے سنائی نا دی
اسنے چونک کر پیچھے دیکھا تو پیچھے اسکا بھائی ہاتھ میں دو چائے کہ مگ لیے کھڑا اسے جواب طلب نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔

"جزاکِ اللہ بھائی
بس سونے ہی لگی تھی مگر آپ تو جانتے ہیں نا کہ بارش میری کمزوری ہے۔"

اپنے بھائی کے ہاتھ سے چائے کا کپ لیتے ہوئے اسنے مسکرا کر کہا ۔
اس پیارے سے موسم نے اسے کچھ وقت کے لیے مال کی بات بھلا دی تھی۔جبھی وہ مسکرا رہی تھی ۔

"ہاں ہاں جانتا ہوں بارش دیکھ کر تو محترمہ مجھے اور مما بابا کو بھی فراموش کر دیتی ہیں
نور کے بھائی نے ایک نظر باہر آسمان کو دیکھ کر چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا ۔
جس پر وہ ہنس پری

 Ahtraam Muhabat By Mehar ChaudhryWhere stories live. Discover now