احترام محبت قسط نمبر:38

100 6 43
                                    

تیز ہواؤں سے یونیورسٹی میں موجود درختوں کے پتے  لہرا رہے تھے۔اور ان پر موجود پرندے کبھی ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی پر چلے جاتے تو کبھی اس درخت کے کسی گہرے کونے میں موجود اپنے گھونسںوں کو دیکھتے کہ آیا انکے بچے تو ٹھیک ہیں۔
گارڈن میں لگے مختلف قسم کے پھولوں کی خوشبو پورے ائیریا کو منور کر رہی تھی اور یہ خوشبوؤ بہت بھلی محسوس ہو رہی تھی۔
ایسے میں اسٹوڈنٹس کا ایک مجموعہ وہاں ٹولیوں کی شکل میں بیٹھا پڑھنے میں مصروف تھا

اگلے سیمسٹر کے اگزامز ہونے والے تھے۔ اسی لیے آج کل سب اسٹوڈنٹس ہی کتابوں میں سر دیے ہوئے تھے۔ سب لوگ اپنے اپنے گروپس بنا کر پڑھائی کر رہے تھے۔
ایک طرف حور ،دعا اور مہرو اور ساتھ  انکی کچھ اور گروپ میٹس   بیٹھی کتابوں اور اہم نوٹس کا ڈھیر لگائے سر جوڑے پڑھنے میں مصروف تھیں۔

اور ایسے ہی کچھ فاصلے پر علی لوگ بھی بیٹھے  پڑھ رہے تھے۔

"عالی تو نے بتایا تھا کہ جبرائیل اور روحیل نے بھی تیری رات ابراہیم مینشن میں غیر موجودگی کی وجہ پوچھی تھی پھر کیا بتایا تو نے "؟

علی پینسل گال پر ٹکائے دھیان نوٹس پر رکھے اس سے مخاطب ہوا

"میں نے انھیں پوری بات نہیں بتائی "

وہ بھی مصروف سے انداز میں بولتے کتاب کا صفحہ پلٹا گیا

"اچھا پھر کیا بتایا ؟"

وہ منتظر سا ہوتے پوچھنے لگا اب دھیان عالیان کی طرف تھا

"بس یہی کہ ہماری ایک کلاس فیلو کسی مشکل میں پھنس گئی تھی تو ہم نے اسکی مدد کی ،اسے اسکے گھر پہنچایا اور اس میں کوئی جھوٹ بھی نہیں ہے "

اسکی طرف دیکھتے عالی نے کتاب رکھ کر اسے آگاہ کیا جبکہ نظروں نے رخ موڑ کر دوسری جانب دیکھا تھا جہاں وہ اپنی دوستوں کے ساتھ بیٹھی  پڑھ رہی تھی

جبکہ  علی نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا

"اور تیرے علاؤہ انکے بارے میں کون کون جانتا ہے "

اشارہ اسکی فیملی کی طرف تھا

"دعا اور میں ہی پوری بات جانتے ہیں جبکہ ماں اور ریحان بھائی کو صرف اتنا ہی معلوم ہے کہ کسی وجہ سے انکا نکاح نہیں ہو سکا اور پوری بات میں کسی کو بتانا بھی نہیں چاہتا اس لیے تم لوگ بھی احتیاط کرنا پلیز"
آخر میں لہجہ التجایہ ہو گیا تھا کیونکہ وہ کسی بھی قیمت پر حور کی عزت خراب نہیں ہونے دے سکتا تھا

"بے فکر رہ عالی تو ایسے سمجھ جیسے ہم کچھ جانتے ہی نہیں"
سعد نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تھپکی دیتے تسلی دی جس پر وہ فخر سے مسکرایا  کیونکہ اسکے پاس دنیا کے سب سے اچھے دوست تھے۔(بس تھورے سے پاگل تھے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف چھے گھنٹوں کے فاصلے پر موجود اس ملک ترکی کی سبانچی یونیورسٹی میں بھی اگزامز زور و شور سے جاری تھے۔
ان دنوں وہ دونوں بس گن چکر بنی ہوئی تھی مگر خوش بھی تھی کیونکہ اسکے فوراََ بعد دونوں نے دوبارہ سے پاکستان آنا تھا اسی خوشی میں وہ بس خوب محنت سے پڑھ رہیں تھیں۔

 Ahtraam Muhabat By Mehar ChaudhryDonde viven las historias. Descúbrelo ahora