احترام محبت قسط نمبر: 40

67 3 29
                                    


نومبر کی شروعات ٹھنڈے موسم ،سکون پہنچاتی دھوپ ،اور بے شمار مصروفیات کے ساتھ  ہوئی تھی، آج نومبر کی آٹھ تاریخ تھی۔ ٹھیک سات دن بعد عالیان اور   حور کا نکاح طے پایا تھا۔

آج وہ سب صبح جلدی اٹھ چکے تھے۔فجر کے بعد سب کانوں میں لگ گئے تھے۔ اکسائنٹمنٹ ہی اتنی تھی کہ آخر کو گھر کے آخری  بچے کا بھی خیر سے نکاح ہونے جا رہا ہے۔اور پھر بہت سارے کام بھی دیکھنے تھے ۔تاکہ عین وقت پر کوئی مسئلہ نہ
حور بھی شاپنگ کے لیے ان کے ساتھ جانے والی تھی
ابھی صبح کے دس بجے کا وقت ہو رہا تھا۔سب ہی آج ٹائم پر تیار ہو چکے تھے۔ کیونکہ کل والی عالیان کی ڈانٹ وہ دوبارہ نہیں لینا چاہتے تھے۔

"سب لوگ گاڑی میں بیٹھو ،باقی حور کو راستے سے پک کر لیں  گئے بیٹا، اور جبرائیل کدھر ہے ؟"

آگے پیچھے دیکھتی وہ بولیں

"جی تائی جی؟"

وہ جو سھیڑیوں سے نیچے اتر رہا تھا ان کی جانب متوجہ ہوا

"بیٹا علشبا اور حور تمہاری گاڑی میں جائیں گی باقی ہم لوگ عالیان کے ساتھ  نکل رہے ہیں"

مسز حسن کی بات پر اس نے سر ہلایا

مسز حسن اور حسن صاحب کے علاؤہ عالیان کے ساتھ ایان جا رہا تھا۔
سب گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔ موسم بھی اچھا تھا۔کم از کم عالیان کا نکاح گرمیوں میں نہیں تھا اس بات کی سب سے زیادہ خوشی جبرائیل کو تھی۔کیونکہ اسے شاپنگ سے چڑ سی تھی۔ اتنے اتنے چکر مال کے لگانا اور ایک سوٹ لے کر واپس آ جانا ،یہ اس کا خیال تھا اپنے گھر کی خواتین کے بارے میں جبکہ اس کے خیالات سے ابھی کوئی واقف نہیں تھا ورنہ اس کی خیر نہیں تھی۔
اور پھر کچھ ہی دیر میں دونوں گاڑیاں آگے پیچھے پتھریلی سرخ پر رواں دواں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد ائیرپورٹ کی بلند و وسیع عمارت دھوپ کے باعث چمک رہی تھی۔معمول کے مطابق لوگ آ جا رہے تھے۔ایلان بھی اپنے بچوں کے ہمراہ سامان والی ٹرالی گھسیٹتے بیرونی دروازے کی سمت بڑھ رہی تھی۔
بلیک گاؤن پہنے ،دوپٹہ گلے میں مفلر کی طرف لپیٹے بلیک ہی گلاسز لگائے، وہ زیان کا ہاتھ تھامے ہوئے تھی۔
وہ کہیں سے بھی دو بچوں کی ماں نہیں لگتی تھی۔کیونکہ اس نے اس عمر میں بھی خود کو کافی مینٹین کیا ہوا تھا۔
امان نے ہی اس کے لیے ہوٹل بک کروایا تھا۔ اور ابھی اسی کی بھیجی گاری میں  وہ ہوٹل جا رہی تھی۔جبکہ امان کی واپسی کل ہونا تھی۔

نائرہ اپنا چھوٹا سا بیگ تھامے آگے چل رہی تھی۔ اس کی دو پونیاں ایک سے دوسری طرف جھول رہیں تھی بلا شبہ وہ بہت ہی پیاری بچی تھی۔ اور پیاری ہونے کے ساتھ ساتھ سمجھدار بھی تھی۔ کیونکہ وہ ایلان کو تنگ نہیں کرتی تھی۔ ورنہ بابا تو اسے بھی بہت یاد آ رہے تھے۔
کچھ دیر میں وہ لوگ پارکنگ ایریا میں موجود تھے۔
ان کا سامان ڈرائیور نے ڈگی میں رکھا اور پھر  ان لوگوں کے گاڑی میں بیٹھتے ہی گاڑی ہوٹل کی طرف گامزن ہو چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 Ahtraam Muhabat By Mehar ChaudhryWhere stories live. Discover now