Ahtram e Muhabbat epi:42

51 1 10
                                    


شام کے گھنے سائے پورے اسلام آباد کو گھیر چکے تھے۔ حیات ولا میں بھی اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ عالیان ابھی تک یہیں پر تھا۔ وہ حور کی رخصتی کے بارے میں اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔مگر کھانے اور چائے کے دوران اسے حور سے اکیلے میں بات کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا اب کہیں جا کر حور فری ہوئی تھی۔

"اگر لوگ اپنے ضروری کاموں سے فارغ ہو چکے ہوں تو بندۂ نا چیز کو بات  کرنے کی اجازت ہے؟
حور کچن سے نکلتے ہوئے ہاتھ دوپٹے سے پونچھ رہی تھی جب عالیان سامنے کھڑا نروٹھے لہجے میں بولا
وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے اس کے پاس آئی

”لوگ ضروری لوگوں کے لیے ہی ضروری کام کر رہے تھے۔“ دونوں بازو سینے پر باندھے وہ گویا ہوئی
اس کی بات پر وہ مسکرا دیا

”خیر بتائیے کیا ضروری بات کرنی تھی آپ نے؟“

کچن سے برتن کی آواز پر پلٹ کر پیچھے دیکھتے وہ ساتھ اس سے مخاطب تھی۔
جنت کچن میں سنک کے پاس کھڑی  برتن دھو رہی تھی۔

”ادھر آئیں ناں یہاں بیٹھیں۔“
اس کا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بٹھاتے ہوئے وہ کہتا خود بھی سامنے والے صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔
وہ بھی کچھ حیران سی ہوتی بیٹھ گئی۔ کھڑکیوں سے لکیر کی صورت آتی دھوپ ان کے چہروں کو مزید پر کشش بنا رہی تھی۔

”دراصل بات یہ ہے کہ شاید آپ کو معلوم نہ ہو مگر میری فیملی اب۔۔۔۔۔۔!

وہ بات ادھوری چھوڑ کر تھوڑی مسلنے لگا کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ حور کا ریئکشن کیسا ہوگا اور ابھی تک اسے یہ بات نہیں بتائی گئی تھی اس پر بھی وہ ناراض ہو گی

”آپ کی فیملی اب کیا عالیان؟“
وہ اس کے چہرے کی  طرف دیکھتے نا سمجھی سے پوچھ رہی تھی۔

جنت نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا تھا۔ ( پہلے بتا دیتے تو اب یوں سوچنا نہ پڑتا عالیان بھائی) وہ دل ہی سوچ کر ہنس پڑی

”وہ چاہتے ہیں کہ آپ۔۔۔۔۔!“

(اففف میں اتنا سوچ سوچ کے کیوں بول رہا ہوں )

”عالیان پلیز کھل کے بات کیجئے یوں پہیلیاں کیوں بجھوا رہے ہیں؟“
اس نے کبھی حور سے اس انداز میں بات نہیں کی تھی اس لیے حور اب زچ ہو رہی تھی۔

”اچھا اچھا بتاتا ہوں۔“

(یا اللہ عزت رکھ لینا )

” وہ۔۔۔۔!  ٹھوری ایک مرتبہ پھر کھجائی ،”دراصل دادا ابو آپ کی رخصتی کے بارے میں سوچ رہے ہیں بلکہ۔۔۔۔۔بلکہ بات بھی کر چکے ہیں۔“ اپنی بات کہہ کر اس نے لب دانتوں تلے دبائے

اور حور حیات کی آنکھیں پوری کھل چکی تھیں۔ وہ کبھی عالیان کو دیکھتی تو کبھی کچن میں انجان بنی کھڑی جنت کو جو کب کے برتن دھو چکی تھی مگر ابھی تک وہیں پر جمی ہوئی تھی۔

"ک۔۔۔کیا مطلب۔۔۔۔۔رخصتی ۔۔۔۔۔۔۔ اتنی جلدی رخصتی ۔۔۔ ابھی۔۔۔ابھی نکاح کو دن ہی کتنے ہوئے ہیں  عالیان اتنی۔۔۔۔اتنی جلدی رخصتی اور یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بات بھی کر لی ایسے کیسے۔۔۔۔۔!

 Ahtraam Muhabat By Mehar ChaudhryWo Geschichten leben. Entdecke jetzt